Share

مولوی کی پانچ اقسام
لفظ مولوی تاریخ میں پہلی بار مولانا جلال الدین رومی نے اپنے لیے استعمال کیا۔ مولانا رومی مسلمانوں میں ایسی شخصیت گزری ہیں جن کو ایک زمانہ پڑھنا پسند کرتا ہے۔ امریکہ میں 2014 میں پڑھی جانے والی شخصیات میں سب سے نمایاں مقام پر مولانا رہے۔ آج بھی یہ مطالعہ کم نہیں ہوا بلکہ انحا عالم میں ان کی مثنوی کو ترجمہ کروا کر خوب ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے اقوال سوشل میڈیا پر گردش کرتے ہوئے، لائبریریوں کی دیواروں پر گاڑیوں کی پشت پر لکھے نظر آتے ہیں۔

یہ سب ان کی تعلیمات اور نظریات کی قوت کی وجہ سے ہے کہ غیر مسلم بھی ان سے اپنی محبت کا اظہار ان کے اقوال کی ترویج کے ذریعے کرتے ہیں۔ 30 ستمبر 1207 ( 06 ربیع الاول 604 ہ) کو بلخ، افغانستان میں پیدا ہونے والے مولانا روم نے اپنے والد سے ابتدائی تعلیم کے بعد عراق، شام، مکہ اور ترکی کے دورے کیے۔ آپ کی زندگی کے آخری ایام ترکی کے شہر قونیہ میں گزرے۔ 17 دسمبر 1273 کو آپ کی وفات کے بعد مزار قونیہ میں بنا۔ ہر مذہب کے لوگ بلا فرق رنگ و نسل ان کو خراج عقیدت پیش کرنے ان کے مزار کا رخ کرتے ہیں۔

سات صدیاں گزرنے کے بعد بھی مولوی روم کا اثر و سحر دنیا سے ختم نہیں ہوا۔ یہ ان کا اعجاز ہے کہ آج بھی لوگوں میں زندہ ہیں۔ مولوی اس بات کا سہرا اپنے مربی و مرشد شمس تبریزی کو دیتے ہیں۔ بقول اقبال لاہوری:

مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا غلام شمس تبریز شد
مولوی اس وقت تک مولائے روم نہ ہوئے جب تک انہوں نے شمس تبریز کی غلامی (شاگردی و صحبت) اختیار نہ کی۔

لفظ ”مولوی“ کی طرف واپس آتے ہیں۔ عربی و فارسی لغات نے بالاتفاق لفظ مولوی کا معنی ”عالم، درویش و متشرع بزرگ“ کیا ہے۔ ان لغات سے اس بات کا اشارہ ملتا ہے کہ اس لفظ کے یہ معانی مولانا روم کی شخصیت کو دیکھ کر متعین کیے گئے ہیں۔

فارس اور برصغیر میں جو شخص مدرسہ کی تعلیم پا کر فارغ التحصیل ہوتا ہے اسے مولوی کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ایک وقت تھا اس لفظ کو بہت عزت و تکریم کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اگر کسی کو پتہ چل جاتا کہ فلاں شخص مولوی ہے تو اس کی مدارت میں کسر اٹھا نہ رکھتے۔ لفظ مولوی جس کے نام کے ساتھ لگ جاتا تو قدر و قیمت کے اعتبار سے ہلکا شخص ہر گز نہ ہوتا، اسے علوم کا ماہر گردانا جاتا۔ جیسے آج کل یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی اصطلاح مستعمل ہے، اسی طرز پر گویا مولوی اس وقت کا پی ایچ ڈی ہوا کرتا تھا۔ آج بھی مولوی بننے کے لیے آٹھ سال کا کورس کرنا پڑتا ہے جسے درس نظامی کہا جاتا ہے۔

موجودہ دور میں لفظ مولوی کو مختلف افراد پر چسپاں کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح مولویوں کی مختلف اقسام وجود میں آ چکی ہیں۔

1۔ روایتی مولوی: اس قسم میں وہ مولوی آتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ مدارس سے تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور محنت شاقہ کے بعد انہیں مولوی ہونے کی سند یا ڈگری ملتی ہے۔ ان مولویوں کو عوام میں شریعت کے احکام و مسائل بتاتے، حکومتی و سرکاری تقریبات میں تلاوت و دعا کراتے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے مولوی خود کو زیادہ تر منبر و محراب تک محدود رکھتے ہیں۔

2۔ سیاسی مولوی: وہ مولوی جو مذہب کو سیاست کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ان کے ہارنے سے اسلام خطرے میں پڑ جاتا ہے اور ان کی فتح سے اسلام کا بول بالا ہوتا ہے۔ ایسے مولوی حکومت اور اداروں کو دھمکاتے دکھائی دیتے ہیں اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے مذہبی جنونیوں اور مدارس کے طلبا کو استعمال کرتے ہیں تاکہ شاہراہیں بند کر کے اسلام کی، خدمت، کر سکیں۔ خود سربراہ مولوی صاحب اس تاڑ میں ہوتے ہیں کہ ان کو پرکشش عہدے اور مال و متاع ملتا رہے۔

3۔ ”مولوی ٹائپ“ مولوی: یہ اصطلاح میری نہیں ہے، اردو لغت بورڈ سے لی گئی ہے۔ ایسے مولوی کو کہا جاتا ہے جس نے حلیہ ”مولوی“ جیسا بنایا ہوتا ہے مگر کسی مدرسہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہوتی ہے اور نہ ہی دینی علم کسی اور ذرائع سے حاصل کیا ہوتا ہے۔ مولوی بننے کے خواہش مند اس طرح کے حضرات مرد و خواتین میں یکساں طور پر پائے جاتے ہیں۔

تعلیمی اداروں میں اور دیگر سرکاری اور غیر سرکاری دفاتر میں اس قسم کے مولوی بکثرت مل جاتے ہیں۔ یہ لوگ مولوی ہونے کے ساتھ ساتھ مبلغ یا مصلح کے روپ بھی اوڑھ لیتے ہیں۔ پینٹ شرٹ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھ کر بے حیائی اور فحاشی پھیلانے کے اسباب قرار دیتے ہیں۔ مولوی ٹائپ عورتیں مختلف توہمات کا شکار ہوتی ہیں اور مختلف مواقعوں پر دوسروں کو اوراد و وظائف بتاتی دکھائی دیتی ہیں۔

4۔ لبرل مولوی: موجودہ دور میں عقلیت اور لبرل ازم کے اثر کی وجہ سے مولوی اپنے آپ کو تنقید سے بچانے یا مذہب کو عقل اور موجودہ دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے اپنا جھکاؤ لبرل اقدار کی طرف کرنے کے ساتھ اپنا طرز زندگی بھی اس طرف موڑ دیتے ہیں۔

اس قسم کے مولوی کی بھرپور کوشش ہوتی ہے کہ مذہب کو ایسے طریقے سے پیش کیا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے نظریات کی طرف آئیں۔ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ مذہبی و لبرل حلقے میں ان کی ناموری رہے۔ بہرکیف یہ مولوی دین اور دنیا کے علوم پر دسترس حاصل کرنے کی سعی میں لگے رہتے ہیں۔

5۔ سائنسی مولوی: لبرل ازم کے بڑھتے رجحان کی وجہ سے لبرل اقدار کے بل پر سائنس و عقل پسندوں نے مولوی کو دقیانوس سمجھنا شروع کر دیا اور ان کے نزدیک مولوی حضرات روایت پسندی کا شکار ہیں۔ مزید یہ کہ عقل و دلیل سے ان کو کچھ سروکار نہیں۔ لہٰذا لفظ مولوی طنز کے طور پر بھی سنائی دیا جاتا ہے۔

لبرل حضرات ہر اس شخص کو مولوی کہہ گزرتے ہیں جو روایت پسندی کا شکار ہو جبکہ دوسری طرف سائنس کو مذہب ماننے والے کچھ حضرات بھی بعد مقامات پر اسی تعریف پر پورے اترتے نظر آتے ہیں۔ اگر کوئی شخص سائنس کے کسی نظریے یا تھیوری پر سوال کر دے یا سمجھنے کی غرض سے تنقید کرے تو صبر و برداشت سے عاری یہی چند لوگ ”سائنسی مولوی“ سائل کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناتے ہیں گویا یوں گمان کرنے لگتے ہیں کہ سائل سائنس کا دشمن ہے۔

نوٹ: مندرجہ بالا اقسام کے مولوی ہر جگہ اور علاقے   میں دکھائی دیتے ہیں۔