مولوی
کچھ مذہبی انتہا پسند ہوں یا چند شدت پسند لبرل... ایک ہی "مائنڈ سیٹ" کے دو رخ ہیں...دونوں ہی" اپنی بات "کو "حرف آخر "سمجھتے اور ایک دوسرے کو "شک کا فائدہ "دینے کو بھی تیار نہیں ہوتے..۔سخت گیر مذہبی" ڈنڈا" پکڑے ہوتے ہیں تو "ہارڈ لا ئنر لبرلز" بھی "نشتر "چلاتے نظر آتے ہیں..."قدامت پسندوں" کو چھوڑیے کہ وہ تو ٹھہرے ہی ضدی،روشن خیالوں کا کیا کریں کہ وہ دوسروں کو جس کام سے روکتے ہیں وہی خود "ضدی بچوں "کی طرح کرتے ہیں...
اپنے "کلین شیوڈ" چہرے اور پینٹ شرٹ پر تنقید برداشت نہیں مگر دوسرے کی داڑھی اور پگڑی پر طنز جائز ہے...اِن کے مطابق انگریزی ضروری ہے مگت عربی کا کیا فائدہ؟وہ اتنے "غصیلے" ہیں کہ اچھے بھلے اعتدال پسند علمائے کرام کے لئے بھی گنجائش نہیں رکھتے ...کچھ نہیں کر پاتے تو معتبر دینی شخصیات کے لیے بھی طنز کے طور لفظ "مولوی" استعمال کرکے اپنا "قد" اونچا کرنے کی کوشش کرتے ہیں...دنیا جہان کے علم کے" دعویدار" اِن "بھولے بادشاہوں" کو علم ہی نہیں کہ مسجد کے اُن درویشوں کے نزدیک لفظ "مولوی "کوئی طعنہ نہیں قابل فخر اعزاز اور خطاب ہے.....
اسی نوے کی دہائی میں پنجاب کےسکولوں میں اُستاد کو ماسٹر کہا جاتاتھا...اَب سر کہتےہیں ...اُستاد جب ماسٹرتھاتب بھی قابلِ عزت تھا،اَب سر ہےتوبھی قابلِ صداحترام ہے...استاد ماسٹر ہو یا سر ،وہ اُستاد ہی ہے...اِسی طرح کسی دورمیں عالمِ دین کے لئے لفظ مولوی استعمال ہوتا تھا، آج مولانا کہا جاتا ہے...وہ تب بھی قابلِ عزت تھا جب مولوی تھا، اب بھی قابل صد احترام ہے جب مولانا ہے...عالم دین مولوی ہو یا مولانا وہ عالم دین ہی ہے...
علمائےکرام کےلیےلفظ مولوی ہرگز "احساس کمتری"نہیں...دور نہیں جاتے،حال کی بات کرتےہیں...میں نےدو تین ماہ پہلےمولاناطارق جمیل صاحب کے حوالے سے ایک کالم لکھا...جامعہ اشرفیہ دارالافتا ءکے سربراہ اور بحریہ ٹاؤن لاہور کی جامع مسجد کے عزت مآب خطیب جناب مفتی احمد علی کا فون آیا کہ بہت اچھا لکھا .... میں "مولوی صاحب "کو بھی بھجواتا ہوں..."مولوی صاحب" سے اُن کی مراد مولانا طارق جمیل صاحب تھے....
چالیس سال سےکعبہ کےپڑوس میں مقیم پی ایچ ڈی اسلامی سکالرجناب ڈاکٹر سعید احمدعنایت اللہ مدرسہ صولتیہ مکہ مکرمہ کے شیخ الحدیث اورانٹرنیشنل ختم نبوت موومنٹ کے مدارالمہام ہیں...وہ بتاتے ہیں کہ جماعت کے بانی امیر مولانا عبدالحفیظ مکیؒ مجھے اکثر مولوی سعید کہہ کر بلاتے ...میں اُن کے اس لفظ کی مٹھاس نہیں بھولتا...شکرگڑھ سے چوتھی مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہونے والے بزرگ عالم دین مولانا غیاث الدین تو اپنے شہر میں باقاعدہ "مولوی" کے نام سے مشہور ہیں...پورا علاقہ اُنہیں "مولوی صاحب" کہتا ہے جبکہ وہ خود بھی اپنے آپ کو مولوی غیاث الدین کہہ کر ہی متعارف کراتے ہیں...ملک کے طول و عرض میں ایسی بہت سی مثالیں مل جائیں گی.. .
نیک نام بیوروکریٹ اور بلند پایہ ادیب جناب قدرت اللہ شہاب نے مولوی کی کیا ہی خوب صورت تصویر پیش کی...وہ شہاب نامہ کے" بملاکماری کی بے چین روح "کے عنوان پر باب میں لکھتے ہیں" ایک زمانے میں ملا اور مولوی کے القاب علم و فضل کی علامت ہواکرتے تھےلیکن جیسے جیسےہماری تعلیم اورثقافت پر مغربی اقدار کا رنگ و روغن چڑھتا گیا،اُسی رفتار سےملااورمولوی کا تقدس پامال ہوتا گیا...رفتہ رفتہ یہ دونوں تعظیمی اور تکریمی الفاظ تضحیک و تحقیر کی ترکش کے تیربن گئے...داڑھیوں والےنا خواندہ لوگوں کو مذاق ہی مذاق میں ملا کا لقب ملنے لگا...کالجوں،یونیورسٹیوں اور دفتروں میں کوٹ پتلون پہنے بغیر دینی رجحان رکھنے والوں کو طنزو تشنیع کے طور پر مولوی پکارا جانے لگا .۔.
مسجدوں کے پیش اماموں پر جمعراتی،شبراتی،عیدی،بقر عیدی اور فاتحہ درود پڑھ کر روٹیاں توڑنے والے،قل اَعوذُئےملاؤں کی پھبتیاں کسی جانے لگیں .. . لو سے جھلستی گرم دوپہروں میں پنکھوں کے نیچے بیٹھنے والے یہ بھول گئے کہ محلے کی مسجد میں ظہر کی اذان ہر روز عین وقت پر اپنے آپ کس طرح ہوتی رہتی ہے؟کڑکڑاتے جاڑوں میں نرم وگرم لحافوں میں لپٹے اجسام کو اس بات پر کبھی حیرت نہ ہوئی کہ اتنی صبح منہ اندھیرے اُٹھ کر فجر کی اذان اس قدر پابندی سے کون دے جاتا ہے؟دن ہو یا رات،آندھی ہو یا طوفان،امن ہو یا فساد،دور ہو یا نزدیک،ہر زمانے میں شہر شہر،گلی گلی،قریہ قریہ،چھوٹی بڑی،کچی پکی مسجدیں اسی ایک ملا کے دم سے آباد رہیں جو خیرات کے ٹکڑوں پر مدرسوں میں پڑھا اور در بدر کی ٹھوکریں کھا کر گھر بار سے دور کہیں اللہ کے کسی گھر میں سر چھپا کے بیٹھ رہا ...
اپنوں کی بے اعتنائی، بیگانوں کی مخاصمت، ماحول کی بے حسی اور معاشرے کی کج ادائی کے باوجود اس نے نہ اپنی وضع قطع کو بدلا اور نہ اپنے لباس کی مخصوص وردی کو چھوڑا ... اپنی استعداد اور دوسروں کی توفیق کے مطابق اس نے کہیں دین کی شمع، کہیں دین کا شعلہ، کہیں دین کی چنگاری روشن رکھی۔ ملّا نے ہی اس کی راکھ کو سمیٹ سمیٹ کر بادِ مخالف کے جھونکوں میں اڑ جانے سے محفوظ رکھا..یہ ملّا ہی کا فیض ہے کہ کہیں کام کے مسلمان، کہیں نام کے مسلمان، کہیں محض نصف نام کے مسلمان ثابت و سالم و برقرار ہیں۔ برِّصغیر کے مسلمان عموماً اور پاکستان کے مسلمان خصوصاً ملّا کے اِس احسانِ عظیم سے کسی طرح سبکدوش نہیں ہو سکتے جس نے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی حد تک اُن کے تشخص کی بنیاد کو ہر دور اور ہر زمانے میں قائم رکھا...
لفظ مولوی کے حوالے سے تو" ہارڈ لائنر لبرلز" کی "تشفی" ہوگئی ہوگی...اب اِن کے شدت پسند رویوں کی طرف آتے ہیں ...بدقسمتی سے ہمارے کچھ " روشن خیال دوست "ہر اس بندے کو "نشانے" پر رکھ لیتے ہیں جو دین کی بات کرے...پھر یہ داڑھی اور پگڑی کا" انتظار" بھی نہیں کرتے اور لٹھ لیے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں...جناب اشفاق احمد نے شاید ایسے لوگوں بارے ہی کہا تھا کہ جو لوگ اسلام کو گالی دینا چاہتے ہیں مگر ڈر یا عوامی دباؤ کے خوف سے ایسا نہیں کر پاتے،وہ مولوی کو گالی دیکر اپنی بھڑاس نکال لیتے ہیں...
خاکسار نے پچھلے دنوں ایک بلاگ میں حدیث کا حوالہ دیا تو ایک دانشور چیخ اٹھے "لو دسو بات حدیث پر ہی آکر ختم ہوتی ہے...یہ ہمارے صحافی اور صحافت ہے"... حدیث یہ تھی کہ جو ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں.۔.بھلا اس سے بہتر بات کیا ہو سکتی ہے؟؟؟ کیا گوتم...کنفیوشس...لینن... شیکسپئیر....ٹالسٹائی اور میکسم گورکی کے حوالے ہی صحافت کی سند ہے؟؟؟؟ویسے ہمیں ان لوگوں کی اچھی باتوں پر بھی اعتراض نہیں کہ ہمارے دین نے ہمیں سکھایا ہے کہ یہ نہ دیکھو کون بات کر رہا ہے بلکہ یہ دیکھو کہ کیا بات کررہا ہے؟؟؟ بہر کیف وہ دانشور بھی ہمارے بڑے ہیں اور ہم ان کا احترام کرتے رہیں گے...
اب ایک اور ایسے ہی" دانشور"کی عدم برداشت کی کہانی بھی سن لیں...موصوف نے چار پانچ سال پہلے صحافیوں کے الیکشن میں" لبرل کارڈ "کھیلتے ہوئے ایک سنئیر اخبار نویس کے سامنےاپنےمخالف امیدوار بارے"فتوی" دیا کہ اسے ووٹ مت دو ،وہ "جماعتیہ" ہے... اُنہوں نےروشن خیال بھائی کی طرف دیکھااوراستفسار کیا کہ جناب کارل مارکس سے پڑھتے رہے ہیں؟؟؟
پچھلےدنوں ایک بہت ہی قابل احترام دانشور نےمولویوں پر برستے ہوئےشکوہ کیا"اصحاب منبر و محراب "لبرل" کا طعنہ دیتےہوئے نام نہادکاسابقہ نتھی کرنا نہیں بھولتے... اردو فارسی لغت میں تو "نام نہاد" کا مفہوم "برائے نام" اور "بظاہر" وغیرہ بتایا گیا ہے.۔. گویا ہم "نام نہاد" لبرل روشن خیالی کا صحیح مفہوم نہیں جانتے نیز یہ کہ ہمارے افعال اور ہمارا کردار لبرل ازم کے اصولوں پر پورے نہیں اترتے... ہمیں اپنے ایمان کی یہ کمزوری تسلیم ہے...یہ اصحاب اگر ہم گناہ گاروں کو نام نہاد لبرل سمجھتے ہیں تو یقیناً ان کے کاسہ سر میں لبرل کا کوئی حقیقی اور مثبت مفہوم بھی ہو گا "
ہمارے خیال میں اُن کے مخاطب مفتی منیب الرحمان اس کا بہترین اردو میں بہترین جواب دے سکتے ہیں...ہم صرف اتنا عرض کرنے کی جسارت کرینگے کہ جناب عالی!سادہ سی بات ہے کہ جو لبرل دوسروں کے نکتہ نظر ،حلیے اور طرز زندگی کو برداشت نہ کریں وہی نام نہاد اور برائے نام لبرل ہوتے ہیں کہ آپ خود ہی فرماتے ہیں لبرل ازم اور سیکولرازم "جیو اور جینے دو "کا نام ہے...
ویسے آپس کی بات ہے کہ ہمارے بیک وقت مذہبی اور لبرل دوستوں سے اچھے تعلقات ہیں...یاد آیا کہ بزرگ صحافی جناب تاثیر مصطفی نے ایک روز ہمیں لاہور پریس کلب کے گیٹ پر روکا اور کہا کہ آپ کو دیکھ کر مولانا عبیداللہ انورؒ یاد آتے ہیں کہ ان کی" رائٹ لیفٹ" والوں سے یکساں دوستی تھی...آپ کے دائیں بائیں بھی ایسے ہی دوست ہیں...ہوا یوں کہ تاثیر صاحب نماز کے بعد شملہ پہاڑی مسجد سے باہر نکل رہے تھے کہ میں سنئیر اخبار نویس جناب خالد چودھری کی گاڑی سے اتر رہا تھا...خیر یہ اُن کا حسن نظر ہے ورنہ کہاں مولانا عبیداللہؒ اور کہاں یہ خاکسار......!
ہمارا مشورہ ہے کہ" بقائے باہمی" کے اصول کے تحت "فریقین "کو ایک دوسرے کو "سپیس "دینی چاہئیے... علمائے کرام حوصلہ رکھیں کہ سارے لبرل دین بیزار نہیں. ... اکثر تو "اندر "سے اتنے اسلام پسند ہوتے ہیں کہ بڑھاپے میں چہرے پر سنت رسول سجا کر خود "مولوی" بن جاتے ہیں..."لبرل بھائی "بھی دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ علمائے کرام بھی فرشتے نہیں انسان ہی ہیں...اِن میں بھی عام انسانوں کی طرح خامیاں خوبیاں ہیں تاہم کمیوں کوتاہیوں کے باوجود وہ نبیوں کے وارث ہیں...وہ اللہ اور رسول ﷺ کی بات کرتے ہیں....قرآن و حدیث پر مبنی علوم نبوی ﷺ یقینی طورپر دنیاوی تعلیم سے برتر،معتبر اور مستند ہیں.... آداب کے دائرے میں رہتے ہوئے اِن "بوریا نشنیوں "سے ضرور اختلاف رائے کریں مگر توہین و تنقیص سے گریز رہے کہ کسی انسان کی تضحیک بہر کیف مکروہ حرکت ہے ........!!