.
’’مولانا‘‘ ، ’’ملّا‘‘ اور ’’مولوی‘‘ یہ الفاظ بالعموم اسلامی پیشواؤں کے لیے احترام و تعظیم کی غرض سے بولے جاتے تھے اور اب بھی شرفا کے ہاں تعظیم کے لیے ہی مستعمل ہیں۔ کسی عالم دین کے لیے ہمارے ہاں احتراماً ’’مولانا‘‘ کا لفظ استعمال ہوتا ہے، افغانستان اور آزاد ریاستوں نیز ترکی تک ’’دینی عالم‘‘ کو ازراہِ احترام یا علمی فراوانی کی وجہ سے ’’ملا‘‘ یا ’’منلا‘‘ کہا جاتا تھا، ہمارے ہاں لفظ ’’علامہ‘‘اسی کے مترادف استعمال ہوتا ہے۔
اسی طرح خداترس ماہر علم کے لیے فارسی بولنے والے خطوں میں ’’مولوی‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا رہا ہے اور وہیں سے ہمارے ہاں بھی وارد ہوکر عام استعمال میں آچکا ہے، جیسے ’’مولوی معنوی‘‘ ، ’’مولوی عبدالحق‘‘ وغیرہ۔
حضرت مولانا اشر ف علی تھانوی فرماتے ہیں: ’’مولوی اسی کو کہتے ہیں جو مولیٰ والا ہو، یعنی علم دین بھی رکھتا ہو اور متقی بھی ہو، خوفِ خدا وغیرہ اخلاقِ حمیدہ رکھتا ہو۔‘‘ ( التبلیغ، ص: ۱۳۳، جلد اول بحوالہ تحفۃ العلماء از مولانا محمد زید، جلد اول، ص:۵۲، البرکۃ کراچی) نیز لکھتے ہیں:’’مولوی میں نسبت ہے مولی کی طرف، یعنی مولیٰ والا‘‘۔ (ایضاً)
الغرض یہ الفاظ اصطلاحی اعتبارسے ازراہِ احترام دین کے ماہر و مستند علما کے لیے ایجاد و استعمال ہوتے تھے۔ فی زمانہ مسلمان گھرانوں میں پیدا ہونے والا دین بیزار طبقہ، جو دین کو براہِ راست مطعون کرنے کی ہمت نہیں کرسکتا، وہ علمائے دین سے تقدس واحترام کی چادر کھینچ کر اپنی مذہب بیزاری کی تسکین چاہتا ہے، اور یہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ ایسے علما جو اپنے کردار و عمل کی بنا پر باطل کی آنکھوں کا کانٹا بنتے چلے آرہے ہوں، ہمیشہ سے باطل پرستوں کے نشانہ پر رہے ہیں، اور ان کے خلاف مختلف قسم کے پروپیگنڈے، الزامات اور بے توقیری کے القابات عام کیے جاتے ہیں، تاکہ عوام متنفر ہوکر ان سے دور ہوجائیں، اور علما سے دوری، دین سے دوری کا باعث ثابت ہوتا ہے، اس طرح دین بیزار طبقہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیابی ڈھونڈتا چلا آرہا ہے۔
علما بیزاری کے ضمن میں دین بیزاری کا یہ تخم چونکہ برطانوی سامراج کا بویا ہوا ہے، اس لیے انگریز سامراج کے کمیشن پر پلنے والی اس کی روحانی ذریت‘ انگریز مخالف علما کو دہشت گرد قرار دے کر بدنام کرنا چاہتی ہے اور انہیں انگریز کا ایجنٹ بھی قرار دیتی ہے۔ فی الواقع انگریز کے ایجنٹ اور نمک خوار کون لوگ ہیں؟ ماضی و حال میں سے اس کی فہرست مرتب کرنا میرے خیال میں یونی ورسٹی کی سطح پر بحث و تحقیق کے مراحل سے گزرنے والے کئی طلبہ کے لیے P.H.D کا مواد بن سکتاہے۔ اپنے ناقص خیال و مطالعہ کی روشنی میں انگریز کے ایجنٹوں کی چند تاریخی و واقعاتی نشانیاں ذکر کرنے پر اکتفا کرتا ہوں، ان کی روشنی میں آپ خود مثالیں ڈھونڈ کر تطبیق دیتے رہیں اور نتائج پر سر دُھنتے رہیں:
ہ۱…انگریز کا ایجنٹ ہونے کے لیے انگریزی فکر و فلسفہ کو ایمان کا درجہ قرار دینا۔
ہ۲…دنیا و آخرت کی کامیابی کو انگریزی تعلیم و تربیت سے جوڑنا۔
ہ۳…رہن سہن، بودوباش اور بول چال میں انگریز کو اپنا آئیڈیل سمجھنا۔
ہ۴…انگریز کی وفاداری، خدمت گزاری اور باج گزاری کو سرِ کامرانی اور رازِ جاویدانی سمجھنا۔
ہ۵…اپنے سیاسی و مذہبی مسائل کے حل کے لیے انگریز کو قاضی ٔ انصاف اورخلیفہ عادل جانتے ہوئے اس سے رجوع کرنا۔
ہ۶…انگریز کی حکمرانی اور بالادستی کو ارضِ ہندپر ظل خداوندی سمجھنا اور باور کرانا۔
ہ۷…انگریزی اقتدار کے دوام و استحکام کے لیے بیساکھی بننا اور اپنوں پر مظالم کے ناجائز بہانے بنانا اور انگریز کے جاسوس کا کردار ادا کرنا۔
ہ۸…اپنوں کو انگریز کے ہاتھوں جور و ستم کا نشانہ بناکر، انگریزی عطیہ اور خدمت کا صلہ بناکر اپنوں کی زمینیں اپنے نام کروانا۔
ہ۹… انگریز کے خلاف تحریکات کا حصہ بن کر انگریزوں کے لیے اپنوں کی مخبریاں کرنا۔
ہ۱۰… انگریز سے مالی مفاد سمیٹنے کے لیے دینی حمیت اور قومی غیرت کے سوداگر بننا۔
ہ۱۱…انگریز کے ہم نوا بن کر مسلمانوں کے خلاف اس کی سپاہ کا حصہ بننا۔
ہ۱۲…انگریز مخالف کہلوانے کے باوجود ہمیشہ انگریزی عتاب سے محفوظ رہنا اور القابات، اعزازات اور تمغے وصول کرنا۔
اگر صرف ان چند علامتوں کی روشنی میں ماضی کا مطالعہ یا حال کا جائزہ لیا جائے تو بآسانی اندازہ ہوسکتا ہے کہ انگریز کا ایجنٹ بننے کی اہلیت و صلاحیت کسی ’’مولانا‘‘ ، ’’مولوی‘‘ اور ’’ملا‘‘ میں زیادہ موزوں انداز میں پائی جاتی ہے یا کسی ’’ملابیزار‘‘ میں؟
اللہ ہم سب کو فہم خیر اور صدقِ قول و فعل نصیب فرمائے، آمین۔ ٭٭٭