Share

مولوی یا غریب کی جورو؟
کچھ لوگ مسلمان ھوتے ھیں مگر مسلمان ھو کر مولوی پر احسان کرتے ھیں، وہ چاھتے ھیں کہ مولوی ان کو مسلمان رکھنے کے لئے،ھمیشہ دوڑ دھوپ کرتا رھے،اور ان کی مسلمانی کی قوتِ  کو بڑھانے کے لئے سانڈھے کا تیل اور سلاجیت بھی فراھم کرتا رھے،،

مسئلہ پوچھیں گے تو انداز کچھ ایسا ھو گا جیسے نالائق بچہ سکول جانے سے بچنے کے لئے کوئی نہ کوئی بہانہ تلاش کر رھا ھوتا ھے،، قرآن ان کی نفسیات بتاتا ھے کہ،،یمنون علیک ان اسلموا ،، اے نبیﷺ یہ اپنے اسلام لانے کا آپ کو احسان جتلاتے رھتے ھیں،، قل لا تمنوا علی اسلامکم،،ان سے کہہ دیجئے اپنے اسلام کا میرے پر احسان مت دھرو،،پھر جواب میں چاپلوسی بھی درکار ھوتی ھے کہ جب تک ان کو راجہ صاحب،،چودھری صاحب نہ کہا جائے، جواب سے خوش نہیں ھونگے بلکہ ان کے الفاظ نہیں ھوتے بلکہ کسی گلوکارہ کے گانے کے بول ھوتے ھیں،، میرا دل چناں کچ دا کھلونا تے ویکھیں اینہوں توڑ نہ دیویں،،
ھوووووووو ! فوراً کہہ دیں گے ایک تو آج کل کے مولویوں نے ایمان خراب کر کے رکھ دیا ھے،،
ایمان نہ ھوا چوسنی ھو گئی جو مولوی ھر وقت ان کے منہ میں دے کر رکھا کریں، ان احسان جتانے والوں کا ایمان صرف مولوی کے ھاتھ سے خراب ھوتا ھے، کیونکہ وہ یہ ایمان مولوی کے لاکر میں جمع کرا دیتے ھیں، تا کہ خراب ھو تو مولوی کے ھاتھ سے ھو،،اور وہ قیامت کے دن مولوی کو ذمہ دار ٹھہرائیں،،

یہ لوگ چاھتے ھیں کہ ان کی طرف سے مطالعہ بھی مولوی کرے اور پھر جب ان کو دین کی کوئی بات بتائے تو یہ اس کو پیار سے کہہ سکیں،، چل جھوٹے !

مولوی حضرات “غریب کی جورو ” کا کام بھی آسانی سے کرتے ھیں،، جس کو بیوی پہ غصہ آئے وہ پہلی فرصت میں مسجد پہنچ جائے اور جماعت سے پہلے پریشر بناتا رھے ،جیسے موٹر مکینک کی دکان کا چھوٹو کھڑے موٹر سائیکل کو ریس دیتا رھتا ھے،، جونہی جماعت ختم ھو آپ کسی چیز کو بھی بہانہ بنا کر اس کی بے عزتی کر سکتے ھیں،،بلکہ اس میں جلدی کرنی ھو گی ورنہ دوسرے نے بےعزتی کرنی شروع کر دی تو آپ والی بے عزتی اگلی نماز تک باسی ھو جائے گی !

عشاء کی نماز کے بعد درسِ قرآن تھا، لالٹین کی ھلکی ھلکی روشنی میں ماحول ویسے بھی کچھ خوفناک لگ رھا تھا اوپر سے مولوی فلاں حسین صاحب کا درس اور انداز دونوں بہت خوفناک تھے،جہنم کی سزاؤں کا ذکر اتنی تفصیل سے کر رھے تھے کہ ادھر انہوں نے تھوڑا سا سانس کا وقفہ لیا اور ادھر ایک 11 یا 12 سال کے بچے کا وضو ٹوٹ گیا،، آواز بھی کچھ اتنی رونے والی تھی کہ مجمع مزید غمزدہ ھو گیا،
لڑکے کا باپ بپھر کر کھڑا ھو گیا،، اس نے کہا بس وی کر اوئے مولوی میرا پتر مارنے لگے ھو ! گویا وضو ٹوٹنے کا ذمہ دار بھی مولوی ھو گیا !

لوگ سمجھتے ھیں کہ مولوی ھونا خالہ جی کا گھر ھے،،جس کو گھر والی دوسری بار دال نہیں دیتی وہ بھی مولوی صاحب کو اپنا غلام سمجھتا ھے،، ھمارے مرحوم نمبردار صاحب تو مسجد مین گھستے ھی جونہی مولوی صاحب کو رکوع میں دیکھتے تو نعرہ مارتے ” مولوی جی اوکڑے رھویئے ” مولوی جی جھکے رھنا،، اب مولوی صاحب اٹھ کے دکھائیں ! وہ پاز موڈ میں چلے جاتے،،

عمومی پس منظر:

غریب خاندان یا نچلی ذات کا وہ بچہ جو سکول نہیں پڑھتا اسے آن درسوں میں بھیج دیا جاتا ھے جو فرقوں میں نفرت پھیلا کر چندہ اکٹھا کرنے کے لیئے بنائے جاتے ہیں۔ ایسے درسوں میں گٹھن ذدہ ماحول ھوتا ھے اور مولوی بچوں کو غلاموں کی طرح رکھتے ہیں۔ انہیں مارا پیٹا جاتا ھے اور اکثر ان سے فحش حرکات بھی کی جاتیں ہیں۔ یہ بچے اتنے ڈرے ھوئے ھوتے ہیں کہ کسی سے اس بات کی شکایت بھی نہیں کر سکتے۔ اسی حالت میں یہ بچے جوان ھو جاتے ہیں اور جس فرقے کا درس ھوتا ھے اسکی نفرت بھری عینک پہن کر نام نہاد عالم بن جاتے ہیں۔
    یہ عالم اب دین کا بیڑا غرق کرنے کے لیئے تیار ھوتے ہیں اور کسی گلی محلے کی مسجد سنبھال لیتے ہیں۔ گلی محلے کی مسجد میں امام سلیکٹ کرنے کے لیئے ایک سلیکشن کمیٹی ھوتی ھے۔ اس کمیٹی کے ممبران اکثر جاھل، ان پڑھ، انگوٹھا چھاپ اور معاشرے سے فارغ ایسے لوگ ھوتے ہیں جنکا اور کوئی کام نہیں ھوتا اور یہ لوگ ایک اچھا کام کرتے ہیں جو پانچ وقت کی مسجد میں با جماعت نماز پڑھتے ہیں، یہ علیحدہ بات ھے کہ انہیں نماز پڑھنا کتنی آتی ھے مگر پڑھتے ضرور ہیں۔ ان لوگوں میں فرقہ ورانہ نفرت بہت زیادہ ھوتی ھے اور بڑے غرور اور تکبر سے اپنے فرقے کے علاوہ باقی فرقوں کو کافر کہتے ہیں۔
   یہ نام نہاد کمیٹی اپنی گلی محلے کی مسجد میں اماموں کے انٹرویو کرتی ھے۔ سلیکشن کا معیار مولوی کی آواز کی لے اور مخالف فرقے کے خلاف نفرت اور مناسب شعروں اور نعروں سے طے ھوتا ھے۔ جو مولوی ان سب چیزوں پر پورا آتڑتا ھے آسے رکھ لیا جاتا ھے۔ اس مولوی کو بخوبی پتا ھوتا ھے کہ جتنا عرصہ اس نے اس مسجد میں رہنا ھے ان انگوٹھا چھاپ سلیکشن کمیٹی کے ممبران کی ٹی سی کرنی ھے۔ شروع شروع میں مولوی ساب کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ھے۔ اس مولوی کی کوئی تنخواہ نہیں ھوتی بلکہ اسے ماہانہ گیارہویں کے ختم پر نعتیں پڑھنے پر ویلیں ملتی ہیں اور کسی فوتگی پر جنازہ پڑھانے پر ایک جوڑا کپڑے اور کچھ روپے ملتے ہیں۔ دونوں عیدوں پر تقریر کرنے پر ویلیں ملتی ہیں اور جمعہ والے دن بھی تقریر کرنے پر کچھ ویلیں مل جاتیں ہیں۔ مولوی کو اصل پیسے قربانی کی کھالیں اکٹھی کرنے پر ملتے ہیں۔
یہ مولوی بچے بچیوں کو قرآن بھی پڑھاتے ہیں اور چونکہ یہ خود گھٹن زدہ ماحول میں جنسی زیادتیوں کے بعد پڑھے ھوئے ھوتے ہیں اسلئے یہ یہاں بھی ایسا ماحول بنا کر اپنا ماضی کا بدلہ ان معصوم بچوں سے لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی تقریروں میں مخالف فرقے کے خلاف زہر اگلتے ہیں اور انہیں کافر قرار دیتے ہیں جبکہ سننے والے نعرے لگاتے ہیں اور واہ واہ کرتے ہیں۔
  چھ مہینے سال گزرنے کے بعد مولوی کا ہنی مون پڑیڈ ختم ھونا شروع ھو جاتا ھے۔ سلیکشن کمیٹی سے اختلافات بڑھتے ہیں تو مولوی کو منہ پرگندی گالیاں دینی شروع کر دی جاتیں ہیں۔ اور آخر میں دھکے مار کر مولوی کو نکال دیا جاتا ھے۔ اختلافات کے دوران جب مولوی کو اپنا انجام نظر آنا شروع ھو جاتا ھے تو وہ کسی اور مسجد میں سلیکشن کے لیئے ہاتھ پاؤں مارنا شروع کر دیتا ھے اور اچانک یہاں سے دوسری جگہ شفٹ ھو جاتا ھے اور سلیکشن کمیٹی والے دوبارہ انٹرویو کرنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ سلسلہ ساری زندگی چلتا رہتا ھے۔