Share


کچھ لوگ جن کی ذھنیت ابھی تک پینڈو ٹائپ ھے وہ سوشل میڈیا / فیس بک پر آ کر بھی مولوی کو اپنا کمی ھی سمجھتے ھیں،،خواتین ھیں تو وہ بھی عموماً اپنے شوھر کی بےراہ روی کا ذمہ دار مولوی صاحب کو ھی سمجھتی ھیں،،
ایک خاتون نے فون کیا ” ھیلو ،،، آپ قاری صاحب بات کر رھے ھیں،،جی ،،فرمائیے کیا خدمت کر سکتا ھوں،، آپ کیسے قاری ھیں میرا بندہ ھر جمعہ آپ کے پیچھے پڑھتا ھے اور پیر کا درس بھی مِس نہیں کرتا مگر آپ اسے بندے کا پُتر نہیں بنا سکے ؟ گھر میں گالیاں دیتا ھے اور بچوں کے سامنے میری اور میرے والدین کی انسلٹ کرتا ھے،
میں نے عرض کیا کہ محترمہ میرے پاس یہ ھفتے میں دو گھنٹے ھوتا ھے جبکہ آپ کے پاس 166 گھنٹے ھوتا ھے،اگر آپ کے 166 گھنٹے اس کا کچھ نہیں بگاڑتے تو میرے دو گھنٹے سے تو اس کی داڑھ بھی سلونی نہیں ھوتی ھو گی۔

والدین بچوں کے بگاڑ کی ذمہ داری بھی مولوی پر ھی ڈالتے ھیں،،
مولوی جی بچہ آپ کے پاس بھیجتے ھیں کہ اس کو کچھ سمجھائیں مگر یہ تو ویسے کا ویسا ھی ھے،، اب جن والدین کے پاس وہ رھتا ھے، جن کی نقل کرتا ھے ،جن کو اسوہ سمجھتا ھے ا،، اگر ان سے ھی اس نے بگاڑ سیکھا ھے تو مولوی صاحب اس کی ونڈوز میں کیسے چینجیز کر سکتے ھیں ۔ ۔ ؟
مانا کہ بچوں کی پیدائش میں مولوی کا بھی ایک رول ھے مگر وہ اتنا بھی نہیں ھے کہ بچوں کی اخلاقی تربیت میں کمی کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر ڈال دیا جائے،،
ایک صاحب مدرسے میں ھمارے مشہورِ استاد حافظ محمد اقبال صاحب کے پاس تشریف لائے ،،
حافظ صاحب ابھی ایک”سراپا شکوہ “قسم کے والد کو فارغ کر کے بچوں کی طرف متوجہ ھوئے ھی تھے کہ پیچھے سے آواز آئی حافظ جی !
حافظ جی جس انداز سے ان کی طرف پلٹے ،ھم جو ان کی رگ رگ سے واقف تھے،اس انداز سے ھی سمجھ گئے کہ آج یہ بندہ خالی ھاتھ واپس نہیں جائے گا،، حافظ صاحب نے سڑے انداز میں فرمایا ،جی؟؟؟؟
میرے 8 بچے ھیں،بندے کے منہ سے ابھی اتنا ھی نکلا تھا کہ حافظ صاحب نے دھنی کی چکوالی زبان میں گل افشانی کی
” ایدھے وچ مہنڈا کہڑا قصور اے بزرگو ! 150 روپے وچ اپنے قصور وی مہنڈے سر منڈھی ویندے او؟؟
بندہ بیچارہ حافظ صاحب کی بے تکلفی پر حیران پریشان !! کچھ لوگوں کا جواب ھی حافظ محمد اقبال صاحب ھی ھیں،
ایک عالم لکھتے ہیں ایک مسجد میں اک صاحب کو مولوی میں کیڑے نکالنے کی بہت بیماری تھی، میں نے اس مسجد میں نئی نئی امامت شروع کی تو پہلا ہفتہ تو اس نے اس بیٹسمین کی طرح گزارا جو نئے باؤلر کا پہلا آوور کھیل رہا ہو، جب اسے لائن و لینتھ کا اندازہ ہو گیا تو ایک دن مغرب کا سلام پھرتے ہی پہلی صف میں کھڑا ہوگیا کہنے لگا، میں ابھی درودشریف ہی پڑھ رہا ہوتا ہوں کہ آپ سلام پھیر دیتے ہیں۔
امامی جواب تو یہ ہو سکتا تھا کہ بھائی امام مقتدی کا نہیں بلکہ مقتدی امام کا پابند ہوتا ہے، لیکن میرا جواب تھا، آپ درود بلند آواز سے پڑھا کریں تاکہ میں سن اور جان پایا کروں کہ پورا کر چکے ہیں۔ دیگر مقتدیوں کے بے ساختہ قہقہے نے اس فسادی کے اوسان خطاء کر دیئے،
کچھ دن بعد پھر کھڑا ہوا ،بات شروع ہی کی تھی کہ میں نے کہا “دیکھو میاں آج سے میری نیت میں تم شامل نہیں ہو اور اگر امام ایک مقتدی کو ارادتاََ نیت سے خارج کردے اسکی نماز ہی اس امام کے پیچھے نہیں ہوتی ہے، اگلی نماز سے اس مسجد میں نظر نہ آنا۔ یوں اس مسجد کی اس سے جان چھوٹ گئی۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ اس دنیا میں صرف پنگے باز امام ہی نہیں پائے جاتے، پنگے باز مقتدی بھی ہوتے ہیں، ایسے مقتدی نماز کے بعد مختلف چیزوں کو یوں غور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے افسر اعلیٰ انسپیکشن کر رہا ہو، کوئی عیب نہ مل سکے تو یہی کہدیتے ہیں،
وضوخانے میں ایک ٹوٹی ٹپک رہی ہے”۔